لال خون تو نربھیا کا تھا یاسر ندیم الواجدی جموں کی عاصفہ دراصل نربھیا نہیں ہے۔ یہ اس کی غلطی ہے کہ وہ ایک آٹھ سال کی مسلمان بچی تھی، اس کی ہی غلطی تھی کہ وہ اکیلے بکریاں چرانے کے لیے نکلی تھی، اس کی ہی غلطی تھی کہ مندر کے پجاری اس کے بیٹے، بیٹے کے دوست اور پولیس والوں نے اس کا ریپ کیا، وہ تو اچھا کیا کہ انھوں نے بچی کو بیہوشی کی گولیاں بھی کھلادیں تھی، شاید جب وہ ریپ کرنے کے اس کو بعد بجلی کا کرنٹ لگارہے تھے اس کو اتنی تکلیف نہ ہورہی ہو، تبھی تو آسانی سے اس نے دو پتھروں کے درمیان اپنا سر بھی کچل والیا۔ بھلا کہاں نربھیا اور کہاں عاصفہ!۔ نربھیا کے لیے پورا بھارت کھڑا ہوگیا تھا، عاصفہ کے لیے کون کھڑا ہوگا، جموں علاقے کے انتہاپسند فرقہ پرست تو "جے شری رام" کا نعرہ لگاکر مجرموں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ وہ وکیل جو انصاف کی لڑائی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، کھڑے تو ہوے لیکن پولیس کو روکنے کے لیے جب وہ مجرموں کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے جارہی تھی۔ وہ کھڑے ہوے لیکن شیطانوں کی حمایت میں، کیوں کہ وہ بچی جو کئی دنوں تک ظلم سہتی سہتی آخر کار مرگئی نربھیا نہیں تھی۔ اترپردیش کے اناو سے لیکر ج